#2nd_marriage_romantic_rude_hero_contract_marriage_innocent_heroin_funny_based
#1st_sneak_peak
#_ناول_وحشت_رقصم
#از_آسیہ_ایمان
سر میں شدید درد کے باعث اسکی آنکھ کھلی تھی۔ سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے بے اختیار منہ سے سسکی نکلی تھی لیکن ہمت کرتے وہ جیسے ہی بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی اچانک سے ذہن میں جھماکہ ہوا تھا۔ وہ اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ مارکیٹ آئی تھی۔ واپسی پر گاڑی میں خرابی کی وجہ سے انکو روکنا پڑا تھا تبھی ایک نقاب پوش نے ڈرائیور کہ گاڑی کو چیک کرنے کے لئے باہر آیا تھا اس کی ٹانگ پر گولی چلا دی۔۔۔۔
دوسری سائیڈ پر اتے گاڑی کو کھولنے کی کوشش کی تھی گاڑی لاک تھی اس لئے اس نے شیشے پر فائر کرتے اپنی پستول کا رخ میری بیٹی کی طرف کیا ۔۔۔۔
جلدی سے باہر نکل ورنہ اسکا بھیجا اڑا دوں گا دھمکی سنتے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔اسے اپنے سینے سے لگاتے اپنی آغوش میں چھپا لیا ۔۔۔جب اس نے دوسرا شیشہ بھی توڑتے میرے سر پر وار کیا اسکے بعد کیا ہوا کچھ یاد نہیں ۔۔۔۔
جیسے جیسے سب یاد آیا اپنی بیٹی کوآس پاس نا پاتے جسم سے روح پرواز کرنے کے در پہ تھی اگر اسکے ساتھ کچھ غلط ہو گیا تو ؟ ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
کھولو دروازہ کھولو پلیز مجھے جانے دو میری بیٹی میری بیٹی واپس کر دو مجھے پلیز دروازہ کھولو آنسوں لگاتار آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔۔
مجھے جانے دو پلیز خدا کا واسطہ ہے تمھیں جو چاہیے میں دوں گی میری بچی مجھے دیدو خدا کا واسطہ ہے کھولو دروازہ ۔۔۔۔
دروازہ بجاتے ہاتھوں میں درد ہونے لگا تھا جب پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا تھا اور اندر انے والی شخصیت کو دیکھتے آنکھوں پر یقین نا آیا تھا ۔۔۔۔
تم غلیظ انسان کہاں ہے میری بیٹی بتاؤ مجھے ۔۔اسکا گریبان پکڑتے اسے جھنجھوڑ کر سوال کیا تھا ۔۔۔۔
اہ کہا ہے میری بیٹی ۔۔۔۔؟
واہ اتنا پیار کے ایک گھنٹہ صبر نہیں ہوا ہوش میں آتے تمہیں پانچ منٹ ہوئے ہیں اور اتنی تکلیف برداشت کر لی ۔۔۔۔
تو میری تکلیف کا کیا ہاں جو میں برداشت کر رہا ہوں پچھلے دو سال سے اسکا کیا ؟۔۔۔۔
ہے کوئی حساب تمہارے پاس ؟ نہیں ہے نا ؟۔۔۔۔ اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے وہ کوئی پاگل ہی لگا تھا ۔۔۔
بتاؤ ۔۔۔بتاؤ مجھے ۔۔۔۔ تم جانتی تھی میں تم سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔جانتی تھی نا ؟۔۔۔۔۔
پھر کیوں کیا یہ سب ؟۔۔۔۔
ایک بار کیا ایک بار بھی تمہیں میرا خیال آیا ؟۔۔۔۔۔
کیسے آتا میں غریب جو ٹھہرا اور وہ رائیس زادہ ۔۔۔۔۔۔
خود ہی سوال پوچھتے وہ خود ہی جواب دیتے قہقہ لگاتے سرخ آنکھوں سے اسے گھورنے لگا ۔۔۔۔
چھوڑو سب باتوں کو چھوڑو تم معافی مانگو میں معاف کر دو گا پھر ہم شادی کرے گے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے نا ۔۔۔ بس میں اور تم ۔۔۔ تم اور میں ہمارے درمیان اور کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔دیکھو میں نے تمھیں چھوا تک نہیں میری محبت سچی ہے تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ جانتی تم ۔۔۔۔۔ پلیز رحم کرو مجھ پر ۔۔۔۔ روتے ہوئے اسکے قدموں میں گر پڑا تھا ۔۔۔۔۔
پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔۔ مجھے پتا ہے تمہاری محبت سچی ہے میں ایمان لاتی ہوں تمہاری محبت پر ۔۔۔۔
لیکن تم جانتے ہو وہ مجبوری تھی ۔۔۔۔میں نہیں کر سکتی تمہارے لئے کچھ بھی ۔۔۔بھول جاؤ سب ۔۔۔میں بھول گئی ہوں ۔۔۔۔
تمہاری محبت سچی ہے ۔۔۔تم اپنا ظرف بڑا کرو اور بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔میں اب کسی اور کی امانت ہوں میں نہیں کر سکتی میری بچی ہے ۔۔۔ میں نہیں کر سکتی معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔جانے دو میری بچی رو رہی ہوگی ۔۔۔۔
نہیں رو رہی ہوگی وہ اپنے باپ کے پاس ہے ۔۔۔۔اور تم کہی نہیں جاؤ گی تم میری ہو صرف میری اور تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں میں کچھ نہیں دیکھو گا کیا سہی ہے کیا غلط مجھے کچھ نہیں پتا تم کہی نہیں جاؤ گی سمجھی ۔۔۔۔۔
سرخ آنکھوں سے دھاڑتے وہ اسکی سانسیں خشک کر گیا تھا ۔۔۔ جہاں اسے سکون ہوا تھا اسکی بیٹی محفوظ ہے وہی اپ اسے اپنی اور اپنے شوہر کی امانت کا خیال آیا تھا وہ بھی تو امانت تھی اپنے شوہر کی اگر آج کچھ غلط ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
دیکھو میں ہاتھ جوڑتی ہوں مت کرو ایسا تم ایسے تو نا تھے کبھی ۔۔۔۔تم عورت کی عزت کرنے والے تھے نا اور اب بھی ہو تو تم میرے ساتھ کچھ غلط کیسے کر سکتے ہو مجھے جانے دو میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے ۔۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔۔
جانے دوں ؟ ۔۔۔میں جانے دوں ۔۔۔۔۔ اں اں ۔۔۔۔۔ نا ہونے والی بیگم ایسا اب ممکن نہیں ۔۔۔۔ تم میرے سامنے ہو قریب ہو تو میں پاگل تو نہیں جو تمہیں جانے دوں ۔۔۔۔
اور تم نے سنا ہوگا پیار اور جنگ میں سب جائز ہے ۔۔۔ اگر مجھے تمہیں پانا ہے تو یہ سب تو کرنا ہی پڑے گا نا ۔۔۔اور تم پلیز رونا بند کرو مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔۔۔۔
دیکھو اب جو ہوگا اسکے بعد ہم ایک ہونگے اغوا شدہ لڑکی سے کون شادی کرتا ہے بھلا اور لڑکی جب شادی شدہ ہو تو یقین بھی کوئی نہیں کرتا ۔۔۔۔ تمہارا وہ شوہر بھی نہیں رکھے گا تمہیں طلاق دے دے گا پھر تو تمہیں میرا ہی ہونا ہے نا ۔۔۔۔
دیکھو میں غریب تھا لیکن اب نہیں ہوں اپنا خود کا بزنس شروع کیا ہے ۔۔۔ کس کے لئے صرف تمہارے لئے تاکہ تمہیں سری سہولیات مہیا کر سکوں تو دیکھو سب ہے میرے پاس پیسا دولت شہرت بھی ۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی تم جانتے ہو مجھے دولت سے کوئی سروکار نہیں ۔۔۔۔تم جانتے ہو میں مجبور تھی ۔۔۔ لیکن اب میں مجبور نہیں ہوں ۔۔۔اب میں پسند کرتی ہوں اسے ۔۔۔۔ وہ میرا شوہر ہے ہماری ایک بچی ہے ۔۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہے جانے دو مجھے ۔۔۔۔
تم ۔۔۔تم ۔۔۔جھوٹ کہہ رہی ہو نہ تمہیں نہیں ہے اس سے محبت ۔۔۔۔۔ نہیں ہے نہ محبت اس سے ۔۔۔۔۔
سوال پوچھتے وہ کوئی پاگل نفسیاتی ہی لگ رہا تھا اسے ۔۔۔ لیکن اس وقت وہ اسے کوئی بھی امید کی کرن نہیں تھمانا چاہتی تھی ۔۔۔۔یہ سچ تھا کہ وہ امانت ہے کسی کی ۔۔۔بیوی ہے وہ اسکی اسکی ایک پیاری سی بیٹی ہے تو وہ کیوں بھلا امید کا کوئی سرا اسکے ہاتھ پکڑاتی بہتر تھا ایک بار میں ہی اسے حقیقت کا آئینہ دکھا دے ۔۔۔۔۔
تم پاگل ہو چکے ہو ۔۔۔آنکھیں کھولو اور سچائی کو ماننے کی طاقت جٹاؤ ۔۔۔۔ میں اب تمہاری دسترس میں نہیں ہوں ۔۔۔۔ کسی اور کی ہوں ۔۔۔۔
غلط ۔۔۔غلط کہہ رہی ہو تم میرے پاس میرے سامنے ہو تو تم میری دسترس میں ہوئی نا۔۔۔۔۔
اچھا ہوا جو بتا دیا تم نے اب مجھے آسانی رہے گی ۔۔۔۔لیکن میں تمہاری زندگی کو جہنم ضرور بناؤ گا ۔۔۔۔
اسکی طرف بڑھتے چٹاخ ۔۔۔۔۔۔ ایک زور کا تھپڑ اسکے دائیں رخسار پر مارا تھا کہ وہ بیڈ کی پائنتی سے جا ٹکرائی تھی سر میں شدید درد ہی یل لہر اٹھی تھی ۔۔۔ ایک پل کے لئے اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ۔۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے اسنے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا تھا ۔۔۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ کیا سوچ کر تم نے اس سے محبت کی ۔۔۔۔ کیا سوچ کر۔۔۔۔بتاؤ مجھے ۔۔۔۔تمہیں لگا تم مجھ سے یہ سب کہو گی تو تمہیں چھوڑ دوں گا نہیں ۔۔۔۔بلکل نہیں ۔۔۔اب تو کوئی رکاوٹ بھی نہیں آئیگی بیچ پہلے جو تھوڑا تمہارا احساس تھا نہ اب وہ بھی نہیں ۔۔۔۔ اب دیکھو میں کرتا کیا ہوں تمہارے ساتھ ایک ہی جھٹکے میں اسکے بیڈ پر دکھیلتے وہ سرخ آنکھوں سے گھورتے اسے دیکھ رہا تھا جو اب روتے اور معافی کے لئے گڑگڑاتے ہوئے بیڈ کی دوسری سائیڈ سے جلدی سے نیچے اتری تھی اور دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ باہر جاتی اس نے اسے بازو سے پکڑتے پیچھے کی طرف دھکا دیا تھا ایک بار پگر وہ زمین بوس ہوئی تھی بکھرے بال دوپٹہ کھنچا تانی میں زمین پر ایک طرف پڑا ہوا تھا جس اس نے رونے کی شدت سے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں میں خوف لئے روتے ہوئے اپنے آپکو اس دوپٹے سے چھپانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ اسکی حالت قبل رحم تھی ۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے اسے ترس سا آیا تھا لیکن صرف ایک لمحے کے لئے اسکے بعد اس نے اپنے قدم اسکی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔۔۔
Like this page👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
https://www.facebook.com/Asia-eman-writes-105776678560664/
ناول وحشت رقصم
مصنفہ آسیہ ایمان
قسط نمبر 1
سر میں شدید درد کے باعث اسکی آنکھ کھلی تھی۔
سر کو دونوں ہاتھوں میں تھامتے بے اختیار منہ سے سسکی نکلی تھی لیکن ہمت کرتے وہ جیسے ہی بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی اچانک سے ذہن میں جھماکہ ہوا تھا۔ وہ اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ مارکیٹ آئی تھی۔ واپسی پر گاڑی میں خرابی کی وجہ سے انکو روکنا پڑا تھا تبھی ایک نقاب پوش نے ڈرائیور کہ گاڑی کو چیک کرنے کے لئے باہر آیا تھا اس کی ٹانگ پر گولی چلا دی۔۔۔۔
دوسری سائیڈ پر اتے گاڑی کو کھولنے کی کوشش کی تھی گاڑی لاک تھی اس لئے اس نے شیشے پر فائر کرتے اپنی پستول کا رخ میری بیٹی کی طرف کیا ۔۔۔۔
جلدی سے باہر نکل ورنہ اسکا بھیجا اڑا دوں گا دھمکی سنتے میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔اسے اپنے سینے سے لگاتے اپنی آغوش میں چھپا لیا ۔۔۔جب اس نے دوسرا شیشہ بھی توڑتے میرے سر پر وار کیا اسکے بعد کیا ہوا کچھ یاد نہیں ۔۔۔۔
جیسے جیسے سب یاد آیا اپنی بیٹی کوآس پاس نا پاتے جسم سے روح پرواز کرنے کے در پہ تھی اگر اسکے ساتھ کچھ غلط ہو گیا تو ؟ ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
کھولو دروازہ کھولو پلیز مجھے جانے دو میری بیٹی میری بیٹی واپس کر دو مجھے پلیز دروازہ کھولو آنسوں لگاتار آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔۔۔
مجھے جانے دو پلیز خدا کا واسطہ ہے تمھیں جو چاہیے میں دوں گی میری بچی مجھے دیدو خدا کا واسطہ ہے کھولو دروازہ ۔۔۔۔
دروازہ بجاتے ہاتھوں میں درد ہونے لگا تھا جب پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا تھا اور اندر انے والی شخصیت کو دیکھتے آنکھوں پر یقین نا آیا تھا ۔۔۔۔
تم غلیظ انسان کہاں ہے میری بیٹی بتاؤ مجھے ۔۔اسکا گریبان پکڑتے اسے جھنجھوڑ کر سوال کیا تھا ۔۔۔۔
اہ کہا ہے میری بیٹی ۔۔۔۔؟
واہ اتنا پیار کے ایک گھنٹہ صبر نہیں ہوا ہوش میں آتے تمہیں پانچ منٹ ہوئے ہیں اور اتنی تکلیف برداشت کر لی ۔۔۔۔
تو میری تکلیف کا کیا ہاں جو میں برداشت کر رہا ہوں پچھلے دو سال سے اسکا کیا ؟۔۔۔۔
ہے کوئی حساب تمہارے پاس ؟ نہیں ہے نا ؟۔۔۔۔ اپنے بالوں کو اپنی مٹھی میں جکڑتے وہ کوئی پاگل ہی لگا تھا ۔۔۔
بتاؤ ۔۔۔بتاؤ مجھے ۔۔۔۔ تم جانتی تھی میں تم سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔جانتی تھی نا ؟۔۔۔۔۔
پھر کیوں کیا یہ سب ؟۔۔۔۔
ایک بار کیا ایک بار بھی تمہیں میرا خیال آیا ؟۔۔۔۔۔
کیسے آتا میں غریب جو ٹھہرا اور وہ رائیس زادہ ۔۔۔۔۔۔
خود ہی سوال پوچھتے وہ خود ہی جواب دیتے قہقہ لگاتے سرخ آنکھوں سے اسے گھورنے لگا ۔۔۔۔
چھوڑو سب باتوں کو چھوڑو تم معافی مانگو میں معاف کر دو گا پھر ہم شادی کرے گے ۔۔۔۔ ٹھیک ہے نا ۔۔۔ بس میں اور تم ۔۔۔ تم اور میں ہمارے درمیان اور کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے نا ۔۔۔۔دیکھو میں نے تمھیں چھوا تک نہیں میری محبت سچی ہے تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ جانتی تم ۔۔۔۔۔ پلیز رحم کرو مجھ پر ۔۔۔۔ روتے ہوئے اسکے قدموں میں گر پڑا تھا ۔۔۔۔۔
پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔۔ مجھے پتا ہے تمہاری محبت سچی ہے میں ایمان لاتی ہوں تمہاری محبت پر ۔۔۔۔
لیکن تم جانتے ہو وہ مجبوری تھی ۔۔۔۔میں نہیں کر سکتی تمہارے لئے کچھ بھی ۔۔۔بھول جاؤ سب ۔۔۔میں بھول گئی ہوں ۔۔۔۔
تمہاری محبت سچی ہے ۔۔۔تم اپنا ظرف بڑا کرو اور بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔میں اب کسی اور کی امانت ہوں میں نہیں کر سکتی میری بچی ہے ۔۔۔ میں نہیں کر سکتی معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔جانے دو میری بچی رو رہی ہوگی ۔۔۔۔
نہیں رو رہی ہوگی وہ اپنے باپ کے پاس ہے ۔۔۔۔اور تم کہی نہیں جاؤ گی تم میری ہو صرف میری اور تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں میں کچھ نہیں دیکھو گا کیا سہی ہے کیا غلط مجھے کچھ نہیں پتا تم کہی نہیں جاؤ گی سمجھی ۔۔۔۔۔
سرخ آنکھوں سے دھاڑتے وہ اسکی سانسیں خشک کر گیا تھا ۔۔۔ جہاں اسے سکون ہوا تھا اسکی بیٹی محفوظ ہے وہی اپ اسے اپنی اور اپنے شوہر کی امانت کا خیال آیا تھا وہ بھی تو امانت تھی اپنے شوہر کی اگر آج کچھ غلط ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
دیکھو میں ہاتھ جوڑتی ہوں مت کرو ایسا تم ایسے تو نا تھے کبھی ۔۔۔۔تم عورت کی عزت کرنے والے تھے نا اور اب بھی ہو تو تم میرے ساتھ کچھ غلط کیسے کر سکتے ہو مجھے جانے دو میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے ۔۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔۔
جانے دوں ؟ ۔۔۔میں جانے دوں ۔۔۔۔۔ اں اں ۔۔۔۔۔ نا ہونے والی بیگم ایسا اب ممکن نہیں ۔۔۔۔ تم میرے سامنے ہو قریب ہو تو میں پاگل تو نہیں جو تمہیں جانے دوں ۔۔۔۔
اور تم نے سنا ہوگا پیار اور جنگ میں سب جائز ہے ۔۔۔ اگر مجھے تمہیں پانا ہے تو یہ سب تو کرنا ہی پڑے گا نا ۔۔۔اور تم پلیز رونا بند کرو مجھے تکلیف ہو رہی ہے ۔۔۔۔
دیکھو اب جو ہوگا اسکے بعد ہم ایک ہونگے اغوا شدہ لڑکی سے کون شادی کرتا ہے بھلا اور لڑکی جب شادی شدہ ہو تو یقین بھی کوئی نہیں کرتا ۔۔۔۔ تمہارا وہ شوہر بھی نہیں رکھے گا تمہیں طلاق دے دے گا پھر تو تمہیں میرا ہی ہونا ہے نا ۔۔۔۔
دیکھو میں غریب تھا لیکن اب نہیں ہوں اپنا خود کا بزنس شروع کیا ہے ۔۔۔ کس کے لئے صرف تمہارے لئے تاکہ تمہیں سری سہولیات مہیا کر سکوں تو دیکھو سب ہے میرے پاس پیسا دولت شہرت بھی ۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی تم جانتے ہو مجھے دولت سے کوئی سروکار نہیں ۔۔۔۔تم جانتے ہو میں مجبور تھی ۔۔۔ لیکن اب میں مجبور نہیں ہوں ۔۔۔اب میں پسند کرتی ہوں اسے ۔۔۔۔ وہ میرا شوہر ہے ہماری ایک بچی ہے ۔۔۔۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہے جانے دو مجھے ۔۔۔۔
تم ۔۔۔تم ۔۔۔جھوٹ کہہ رہی ہو نہ تمہیں نہیں ہے اس سے محبت ۔۔۔۔۔ نہیں ہے نہ محبت اس سے ۔۔۔۔۔
سوال پوچھتے وہ کوئی پاگل نفسیاتی ہی لگ رہا تھا اسے ۔۔۔ لیکن اس وقت وہ اسے کوئی بھی امید کی کرن نہیں تھمانا چاہتی تھی ۔۔۔۔یہ سچ تھا کہ وہ امانت ہے کسی کی ۔۔۔بیوی ہے وہ اسکی اسکی ایک پیاری سی بیٹی ہے تو وہ کیوں بھلا امید کا کوئی سرا اسکے ہاتھ پکڑاتی بہتر تھا ایک بار میں ہی اسے حقیقت کا آئینہ دکھا دے ۔۔۔۔۔
تم پاگل ہو چکے ہو ۔۔۔آنکھیں کھولو اور سچائی کو ماننے کی طاقت جٹاؤ ۔۔۔۔ میں اب تمہاری دسترس میں نہیں ہوں ۔۔۔۔ کسی اور کی ہوں ۔۔۔۔
غلط ۔۔۔غلط کہہ رہی ہو تم میرے پاس میرے سامنے ہو تو تم میری دسترس میں ہوئی نا۔۔۔۔۔
اچھا ہوا جو بتا دیا تم نے اب مجھے آسانی رہے گی ۔۔۔۔لیکن میں تمہاری زندگی کو جہنم ضرور بناؤ گا ۔۔۔۔
اسکی طرف بڑھتے چٹاخ ۔۔۔۔۔۔ ایک زور کا تھپڑ اسکے دائیں رخسار پر مارا تھا کہ وہ بیڈ کی پائنتی سے جا ٹکرائی تھی سر میں شدید درد ہی یل لہر اٹھی تھی ۔۔۔ ایک پل کے لئے اسکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ۔۔۔۔ جب اگلے ہی لمحے اسنے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا تھا ۔۔۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ کیا سوچ کر تم نے اس سے محبت کی ۔۔۔۔ کیا سوچ کر۔۔۔۔بتاؤ مجھے ۔۔۔۔تمہیں لگا تم مجھ سے یہ سب کہو گی تو تمہیں چھوڑ دوں گا نہیں ۔۔۔۔بلکل نہیں ۔۔۔اب تو کوئی رکاوٹ بھی نہیں آئیگی بیچ پہلے جو تھوڑا تمہارا احساس تھا نہ اب وہ بھی نہیں ۔۔۔۔ اب دیکھو میں کرتا کیا ہوں تمہارے ساتھ ایک ہی جھٹکے میں اسکے بیڈ پر دکھیلتے وہ سرخ آنکھوں سے گھورتے اسے دیکھ رہا تھا جو اب روتے اور معافی کے لئے گڑگڑاتے ہوئے بیڈ کی دوسری سائیڈ سے جلدی سے نیچے اتری تھی اور دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ باہر جاتی اس نے اسے بازو سے پکڑتے پیچھے کی طرف دھکا دیا تھا ایک بار پگر وہ زمین بوس ہوئی تھی بکھرے بال دوپٹہ کھنچا تانی میں زمین پر ایک طرف پڑا ہوا تھا جس اس نے رونے کی شدت سے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں میں خوف لئے روتے ہوئے اپنے آپکو اس دوپٹے سے چھپانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ اسکی حالت قبل رحم تھی ۔۔۔۔ ایک لمحے کے لئے اسے ترس سا آیا تھا لیکن صرف ایک لمحے کے لئے اسکے بعد اس نے اپنے قدم اسکی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/Lamz-shehzadi-Novels-105776678560664/
______________________________
جلدی چلو آج تو بہت دیر ہو گئی تپتی دھوپ میں سر پر سایا کئے غادا اپنی دوست انوشہ سے مخاطب ہوئی ۔
یار آرام سے چل نا انٹی کو بتا دے گے لائبریری کی سیٹنگ میں ہیلپ کی وجہ سے لیٹ ہوئے ہیں ۔
یار تم سمجھ نہیں رہی ہو امی تو کچھ نہیں کہیں کی لیکن وہ پڑوس کی خالہ ہے نا اسکا پتا نہیں کیا بیر ہے مجھ سے وہ نہیں بخشیں گیں چن چن کر طنز کرتی ہیں لڑکی ذات ہے نا پڑھاؤ یہ وہ ۔۔۔۔ بابا بہت اچھے ہیں لیکن ہیں تو مرد نا وہ کبھی کبھی سوچوں میں پتا نہیں کہا پہنچ جاتے ہیں ۔۔
"والدین نے اگر اپنی اولاد کی پرورش اچھی کی ہے تو انکو تھوڑا اعتماد ان پر بھی کرنا چاہیے اولاد کو اپنا دوست بنا کر رکھنا چاہیے تاکہ اگر کوئی مصائب اگر دروازے پر دستک دیں بھی تو وہ خود اپنے بچوں کی ڈھال بن جائیں اور ماں باپ سے زیادہ بھلا کوئی سوچ سکتا ہے اپنے بچوں کا ؟ "
لیکن ہم پٹھان ہیں ہمارے لئے عزت سب سے پہلے ہے پھر چاہے اس عزت کو بچانے کے لئے ہمیں اپنی بیٹی کسی بوڑھے کو ہی کیوں نا دینی پڑے ہم ایک بار نہیں سوچتے اسکے مستقبل کا اور بابا تو ویسے بھی سوچتے ہیں کہ انکی دو بیٹیاں ہی ہیں اللّه کا شکر کرتے ہیں لیکن بیٹے کی چاہت کسے نہیں ہوتی اب وہ چاہتے ہیں ہم عزت سے رخصت ہو جائے اپی کا تو وہ سوچ رہے کہ چٹ منگنی پٹ بياه کر دیں ۔۔۔۔
" کبھی تو لگتا ہے ہم لڑکیاں سب پر بھوج ہیں اپنے گھر میں بھی بچپن سے یہی پڑھایا جاتا اپنے گھر جا کر شوق پورے کر لینا اور اگلے گھر جا کر سننا پڑتا اپنے گھر سے شوق پورے کر کے آنا تھا نہ تو اسکا مطلب تو یہی ہوا ہمارا کوئی گھر ہے ہی نہیں ۔۔۔۔ میں نا شکری نہیں کرتی نا برا سوچتی ہوں لیکن یہ معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے جسکا سامنا بس ہمیں ہی کرنا پڑتا ہے" ۔۔۔
خیر تمہیں تو پتا ہی ہے میں بچپن کی منگ ہوں بادل شیر خان کی وہ اچھے ہیں مجھے پسند کرتے ہیں یہ امی نے مجھے بتایا ہے لیکن جیسی وہ پڑوس کی خالہ ہے اگر پھوپھو کو دو باتیں لگا دی نا اس نے تو شادی تو میری اسی وقت کر دی جانی ہے لیکن طنز ساری زندگی برداشت کرنے پڑے گے اور بادل تو ہیں بھی غصّے والے مجھ پر نا سہی لیکن میں نے انکو دیکھا ہے انکی کہی کوئی نہیں ٹالتا ۔۔۔
یار تم لوگوں کے بھی رواج الگ ہیں اس لحاظ سے ہم پنجابی ہی سہی ہے مست موج والی زندگی ہے ہماری لیکن ساسیں ہماری خطرناک ہوتی ہیں ۔۔۔
اب یہ تو تم رہنے ہی دو انوشہ بیبی مجھے پتا ہے اگر بندہ خود اچھا ہو تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔
میں بھی کسی کو موقع نہیں دینی والی کہ کوئی میری ذات پر انگلی اٹھائے ۔۔۔
ویسے یہ بھی ہے میری تو دعا ہے بادل جیجو اپنے نام کی طرح ہی ہمیشہ تم پر اپنا پیار ،محبت ،چاہت ،شدت اور گھنا سایہ کئے تمہیں دنیا کی ہر خوشی دیں جس پر تمہارا حق ہے ۔۔۔۔
بس اب تم بس کرو گھر آگیا ہے میں چلتی ہوں کل کالج میں ملاقات ہوگی ویسے بھی پیپر تو ختم ہو گئے اب یہ دو چار دن ہم نے فیرول کی تیاری ہی کرنی ہے ۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے کل ملاقات ہوگی اندر جاؤ وہ انٹی تمہیں ہی گھور رہی ہیں اور ساتھ مجھے بھی ۔۔۔۔
تم سدھر جاؤ انہوں نے سن لیا نا میری شامت آجانی چلو اللّه حافظ ۔
کرمان خان ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنکی شادی اپنی بچپن کی منگ گل سے ہوئی تھی انکی ازدواجی زندگی بہت اچھے سے گزر بسر ہو رہی تھی اللّه نے انہیں دو بیٹیوں یعنی اپنی رحمتوں سے نوازا تھا تو کفران نعمت کیوں ٹھہرتے وہ اللّه کی رضا میں خوش تھے ۔ انکی ایک بہن تھی پستا خاتون جنکا رشتہ گاؤں میں ہوا تھا انکے شوہر کی اپنی تھوڑی سی زمین تھی جس پر کاشت کاری کرتے اور گرز بسر ہو جاتی تھی ۔۔۔
چونکہ دل شیر خان کو اپنی بیگم پستا سے بہت محبت تھی تو صرف اولاد کی غرض سے دوسری شادی انکو گوارا نہیں تھی اور شائد یہی انکی بات اللّه کو پسند آگئی تھی اور شادی کے 6 سال بعد بہت منت و مرادوں بعد انکے ہاں بادل شیر خان کی پیدائش ہوئی تھی اور تبھی پستا خاتون نے اپنے بھائی کی چھوٹی بیٹی غادا کا ہاتھ مانگ لیا تھا ایک پل کو کرمان خان چپ ہوئے تھے کہ غادا تو ابھی ایک سال کی تھی جب کہ مارلین 3 سال کی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گئے کہ بادل بھی تو چھوٹا ہی ہے غادا سے ۔۔۔۔۔
پٹھانوں میں رواج ہے لڑکی چھوٹی ہی ہونی چاہیے مرد چاہے 15 سال بھی بڑا کیوں نا ہو ۔۔۔۔
اب انکو مارلین کے رشتے کی فکر تھی انکی نظر میں 24 سال بہت زیادہ بڑی عمر تھی اور اس وقت تک تو بچے بھی ہو جانے چاہیے تھے ۔۔۔اسی سلسلے میں آجکل رشتہ کروانے کے لئے ہیر خالہ ( رشتے کروانے والی خالہ ) گھر کے چکر کاٹ رہی تھی وہ گاؤں کی رہنے والی تھی اور کسی کے گھر میں کب کیا ہوا انکو ہر بات کی خبر ہوتی ۔۔۔۔
السلام علیکم!
امی جان میں آگئی غادا نے محبت سے اپنے ماں کے گلے میں بازو ڈالے تھے اور محبت سے انکے دونوں گال چوم لئے ۔۔۔۔
وعلیکم السلام!
میرا بچا آج اتنی دیر سے کیوں آیا ہے اپنے بابا کو جانتی ہو نہ انکا بس چلے تو مارلین سے پہلے تمہیں رخصت کر دیں ۔۔۔
اوہو ایسا کچھ نہیں ہوگا پیاری امی جان ۔۔۔مجھے بابا کو منانا عطاء ہے اب مجھے بہت بھوک لگی ہے کھانا تو دے دیں ۔۔۔۔ ویسے کیا پکا ہے آج ؟
تم منہ ہاتھ دھو اؤ میں اپنی جان کے لئے کھانا لگاتی ہوں آج کدو شریف پکے ہیں بھئی آپکے ابا کی پسندیدہ سبزی ۔۔۔۔۔
اپ جانتی ہیں نا کدو شریف مجھے بھی بے حد پسند ہے میں ابھی فریش ہو کر آئی ۔۔۔۔۔
اپی اپی ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں اپ ؟
ارے یہی ہوں سانس تو لو تم تو اتے ہی شروع ہو جاتی ہو ۔۔۔۔
اپی میں نے کیا کیا ہے میں تو معصوم سے بہن ہوں نہ اپکی ۔۔۔۔ مارلین کے گلے لگتے اسے بے حد پیار آیا تھا اپنی اپی پر جو کہ نرم دل اور کم گو تھی میٹرک کرتے ہی ابا نے اسے گھر بیٹھا دیا تھا ۔۔۔۔اپنے بابا کے فیصلے پر اس نے بھی سر جھکا دیا تھا اگے سے اف تک نا کی تھی جب کہ اسے پڑھنے کی چاہت تھی۔۔۔۔
لیکن غادا کی بار جب وہ ضد پر اڑی تو مارلین نے بھی بابا کے سامنے اسکا ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔
چونکہ مارلین انکی پہلی اولاد تھی اور زندگی میں پہلی بار اس نے درخواست کی تھی وہ بھی اپنی بہن کی خوشی کے لئے تو بابا کو بھی ماننا ہی پڑا اسکی ہی بدولت اب غادا کی ماسٹرز کی ڈگری مکمل ہوئی تھی اب اسکا ارادہ جاب کرنے کا تھا گھر کے حالت سہی تھے کرمان ٹرک ڈرائیور تھا اچھا کما لیتا تھا لیکن ابھی مارلین کی شادی ہونی تھی اسکا جہیز بنانا تھا…
اور اسے اپنے بابا کے لئے بھی تو کچھ کرنا ہی تھا اس لئے وہ سوچ چکی تھی فیرول کے بعد وہ بابا کو جاب کے لئے تو منا ہی لے گی ۔۔۔۔
جاری ہے۔