Wehshat e raqsam by Asia eman 2nd episode

 



#ناول_وحشت_رقصم 

#مصنفہ_آسیہ_ایمان 

#قسط_نمبر_2


ذرا دھیان سے علی شیر یہ زمین کچھ عرصے سے ایسے ہی بنجر پڑی تھی اب اگر اسکو فصل کے قبل بنانا ہے تو مٹی نرم کرنی پڑے گی اور اس زمین کو دیکھ کر لگ رہا ہے اس پر محنت ہی کافی ضرورت ہے 


لیکن خیال سے کام کرنا ہے ایک ہی دن میں سب ختم کرنے کے چکر میں بیمار پڑ گئے تو بیوی بچوں والے ہو انکو کھلاؤ گے کیا ؟۔۔۔ تو میرے بھائی محنت کرنی ہے لیکن اپنے حواسوں پر بھی قابو ہمیں ہی رکھنا ہے ۔


بادل بھائی بلکل اپکی بات بھی بلکل سہی ہے لیکن اپ اپنی زمین کو چھوڑ کر یہاں اس زمین پر میری مدد کے لئے آئے ہیں تو میں چاہتا ہوں جلد از جلد یہ کام پورا ہو جائے اور فصل بھی بس تیار ہی ہے کچھ ہی دن ہیں تب تک إنشاءاللّٰه یہ زمین بھی گزارے لائق ہو ہی جائے گی ۔۔۔


بات تو سہی ہے لیکن پھر بھی خیال سے کرو میں ذرا پانی کا رخ اس طرف بناتا ہوں مٹی نرم ہوگی تو آسانی رہے گی اور یہ کام اس وقت پانی کر سکتا ہے ۔۔۔ 


شام تک لگاتار محنت اور مشقت سے وہ کامیاب ہوئے تھے آج کا اپنے کام کا ٹارگیٹ پورا کرنے میں ۔۔۔


چلو علی شیر میں ذرا اب زمین کا آخری چکر لگاتے گھر روانہ ہوتا ہوں اماں جان راہ تک رہی ہونگی اپنے شہزادے کی ۔۔۔۔ 

بہت شکریہ بادل بھائی ۔۔۔۔

اب یہ شکریہ وغیرہ بند کرو اور کام سمیٹ کر تم بھی گھر کی راہ لو ۔۔۔۔۔۔


بادل نے بی اے کیا ہوا تھا وہ بھی پڑھائی میں اتنی دلچسپی اسی لئے نہیں دکھائی کیوں کہ اسے پتا تھا کام اسنے کھیتوں میں ہی کرنا تھا تو پھر اتنا پڑھنے کا فائدہ ؟ ہاں لیکن زمین داری کے لئے کورس اس نے کیا ہوا تھا یہ بھی اسکی ماں کی خواہش تھی کہ و۔ کی ہونے والی بہو پڑھ لکھ رہی ہے تو اپنے بیٹے کو بھی تھوڑا ہی سہی لیکن پڑھا لے تاکہ کل کو کوئی بے جوڑ نا کہے ۔۔۔۔۔


بادل شیر خان اپنے باپ سے بلکل الگ مزاج کا تھا دل شیر خان غصّہ والے تھے اصول کے پکے اگر وہ کوئی کام کرتے تو پوری ذمہ داری سے اسے پورا کرتے اگر کسی کی مدد کرنی پڑ جاتی تو اپنا کام ختم کر کے انکے مسائل کو حل کرتے ۔۔۔ انکا ماننا تھا اگر ہم اپنا کام ہی وقت پر نہیں کر سکے تو کسی اور کی کیا خاک مدد کرے گے ۔۔۔۔


جب کہ بادل خان خوش مزاج اور نرم گو تھا اسکا ماننا تھا اگر کام کے دوران کوئی مدد مانگے تو اسکی مدد پہلے کی جائے یقینا اگر اسکو اشد ضرورت نا پڑتی تو کوئی کون مدد مانگنے آتا اس وقت جب اپ اپنا کام کر رہے ہو ۔۔۔۔


اگر اللّه نے ہمیں مدد کرنے والوں میں سے چنا ہے تو جتنی جلدی ہم مدد کر کے اگلے کو اس پریشانی سے نجات دلا دیں اتنا بہتر ہے ۔۔۔۔ 


باپ بیٹا دونوں ہی مدد کرنے کے حق میں رہتے لیکن بس سوچ اور اصول دونوں کے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ اب آج اسی ٹوپک پر اسکی کلاس ہونی تھی اپنے بابا جان کے ہاتھوں وہ جانتا تھا لیکن وہ دل سے مطمئن تھا۔ اور ماں کی سپورٹ بھی حاصل تھی تو یہ اطمینان تو بنتا تھا ۔ 


انجوں سوچوں میں وہ گھر داخل ہوا تھا ۔۔۔۔


السلام علیکم !


اماں جان کیسی ہیں میری پیاری جان ماں کو پیار کرتے پورے گھر پر نظر دوڑائی تھی ۔


وعلیکم السلام !


میرا شیر بچا آگیا دیکھ تو کتنا پسینہ آیا ہوا ہے اپنے دوپٹے کے پلو سے اسکا پسینہ صاف کرتے اسکا ماتھ چوم لیا تھا ۔۔۔


یہ جن نظروں سے تو اطراف میں دیکھ رہا ہے نہ میں خوب سمجھتی ہوں کیوں باپ کو تنگ کرتا ہے ۔۔۔پھر کچھ کر کے آیا ہے نا تو ؟۔۔۔ 


ارے نہیں میری پیاری اماں اپ جانتی ہیں نا وہ علی شیر ہے نہ جسکی زمین تھی یہی پاس میں وہ زمین اصل میں اسکے چچا زاد کی تھی جس پر وہ کام کرتا تھا اور روزی روٹی کماتا تھا اب وہ انہوں نے اس سے لے لی تو تو اس نے سستے میں وہ گاؤں کے اخر والی زمین خرید لی اور مل بھی نہیں رہی تھی یہ بھی غنیمت کے مل گئی تو اسکے ساتھ ہی تھا اب اس زمین کو اگر کاشت کاری کے قابل بنانا ہے تو محنت تو کرنی ہی پڑے گی نا ۔۔۔ . لیکن میں اپنی زمین سے بھی ہو کر آیا ہوں ۔۔۔۔


ہائے میرا بچے میں صدقے تو تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے بہت اچھا کم کیا ہے تو نے چل اب منہ ہاتھ دھو کر آ میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔


ہاں اور اگر کھانا ختم ہو جائے تو اس نواب کا دماغ ہی پکا دینا مجھے ۔۔۔۔۔ پیچھے سے اپنے بابا جان کی آواز سنتے بادل نے زبان دانتوں میں دبائی تھی مطلب شامت آگئی اب ۔۔۔۔


آئے ہائے کیا ہو گیا ہے آپکو ایسی باتیں تو نا کریں ۔۔۔۔


تو اور کیا کروں تم ہی بتا دو آج مجھے ؟۔۔۔۔یہ صاحب زادے تیار فصل کو چھوڑ کر سیر سپاٹوں پر نکلے ہوئے تھے اگر میں وقت پر نا جاتا تو فصل کھرب ہو جانی تھی آپکو پتا بھی ہے لوگ حسد کرتے ہیں کہ ہماری فصل اچھی آتی ہے اب وہ اللّه کی برکت ہے لیکن یہ بات کس کس کو سمجھاؤں اپنے اس نا لائق کو سمجھا دے اپ اپنی زبان میں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔۔


جی میں سمجھا دوں گی اور تم جو جا کر منہ ہاتھ دھو کر اؤ میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔۔۔


بادل اور پستا بیگم اس وقت خاموش ہی رہے تھے جانتے تھے اگر کچھ بولے تو مزید اپنا بلڈ پریشر ہائی کر لینا تھا اسکے بابا نے ۔۔۔۔ لیکن پستا بیگم نے سوچ لیا تھا وہ بعد میں اطمینان سے انکو ساری بات بتائے گی ۔ کام کی وجہ سے بے ساقط انکو غصّہ آجاتا تھا کبھی کبھی ۔۔۔ بادل تو سوال جواب کرتا نہیں تھا بس خاموشی سے ڈانٹ سن لی اور معافی مانگ لی وہ الگ بات تھی کہ اپنے اصولوں سے پھرتا وہ بھی نہیں ۔۔۔۔


کچھ دنوں غادا پڑھائی سے فارغ ہونے والی ہے تو سوچ رہی ہوں اسکے لئے کپڑے وغیرہ لے جاؤں اپ بھی وقت نکل لیجیے گا اور تم بھی بادل ۔۔۔۔ ماں کی بات سنتے اور وہ بھی غادا کے ذکر پر تو بادل کی خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی ۔ بچپن سے جس کے ساتھ خود کا نام سنتا وہ آیا تھا تو اس سے محبت کیوں نا ہوتی اسے ۔۔۔۔ 


جی اماں جان میں تو تیار ہوں ال بس دن بتا دے مجھے مم ۔۔۔۔۔ 

اپنے بابا کی طرف نظر پڑتے ہی اسکے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے ۔


اچھا اماں جان میں تھوڑا آرام کر لوں آپکو بازار جانا ہو تو مجھے بتا دینا ۔۔۔ اس نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی تھی ۔۔۔۔


نا ایسا دیکھا کرے غصّے سے میرا ایک ہی تو بیٹا ہے اور ویسے بھی اسکی منگ ہے وہاں اب اسکی بات ہوگی تو خوشی تو ہوگی ہی نا ۔۔۔۔


بیگم اپ بھی نا بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں  مجھے کوئی اعتراض ہے اسکے جانے پر ؟۔۔۔ میں تو اسکے یوں اپنے باپ کے سمنے بے شرموں کی طرح منگ کا نام سنتے اتاولے پن پر گھور رہا تھا ۔۔۔۔ 


ویسے بابا مجھے پتا تھا اپ ناراض نہیں ہونگے اسی لئے میں دروازے کے پیچھے ہی کھڑا تھا اماں جان اور بابا جان تو حیران نظروں سے اپنے سپوت کے کرنامے پر اسے دیکھ کر رہ گئے جو چوری چھپے انکی باتیں سن رہا تھا بابا نے تو نظروں سے بیگم کو کہ بھی دیا تھا کہ دیکھ لو اپنے لاڈلے کے کام۔۔۔۔۔


 ویسے بابا آئی لوو یو ۔۔۔۔۔۔ باپ کے گھور کر دیکھتے پر فورا اردو میں ترجمہ کیا تھا مطلب میں اپ سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔ 


بادل کے اچانک سے صفائی دینے پر اور پیار کا اظہار کرنے پر اسکے بابا کے چہرے کی رونق اور بڑھ گئی تھی سیروں خون بڑھ گیا تھا بابا نے بے ساختہ اپنی باہیں وا کی تھی جس میں بادل اسمایہ تھا ہم بھی بہت پیار کرتے ہیں تم سے ۔۔۔۔۔۔ وہ ایسے ہی تھے ل میں تولا اور میں ماشہ ۔۔۔۔۔۔


 بس اب کچھ سنجیدگی لاؤ خود میں کل تو تمہاری شادی بھی کرنی ہے ۔۔۔۔ بابا میں تو سنجیدہ ہوں اپ نے کبھی غور ہی نہیں کیا چلے اب جلدی سے شادی کر دے میری ۔۔۔۔

 

تم نہیں سدھرو گے دیکھ لو بیگم میرا شیر کافی بد معاش ہو گیا ہے لیکن بیٹا جی شادی کے بعد اچھے اچھے سیدھے ہو جاتے ہیں ۔۔۔ 


ان باپ بیٹے کو ایسا ہنستے دیکھ کر پستا بیگم نے دل سے انکی دائمی خوشیوں کی دعا کی تھی ۔ لیکن وقت اگے کیا کیا دکھانے والا تھا ان سب سے انجان وہ اپنے آج میں خوش تھے ۔۔۔۔۔۔

  

________________________


سر آرہے ہیں سر آرہے ہیں سب لوگ پلیز بی کیئر فل سامنے سے اپنے باس زاویار حارب شاہ کو اتے دیکھ سب کے منہ بند ہو گئے تھے سب کام میں اس طرح مصروف ہو گئے جیسے اب انکی گردنیں اوپر اٹھی تو ٹوٹ جائے گی مجید صاحب جو کہ سیکٹری کے عہدے پر فائز ہیں وہ اپنے باس کے ہم قدم ہونے کی پوری کوشش کر رہے تھے لیکن اپنی عمر کی وجہ سے ناکام ہو رہے تھے ۔۔۔۔ یہ منظر ایک ملٹی نیشنل کمپئی کا تھا ۔۔۔۔ جہاں زاویار حارب شاہ خود تو ایک مشین کی طرح کام کرتا تھا جب کہ لوگوں کو بھی روبوٹ ہی بنا دیا تھا ۔ صبح شام بس کام کام اور اسکی محنت کی بدولت آج انکی کمپنی نمبر 1 پر تھی ۔۔۔۔۔ 


حارب شاہ کی سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوئی موت کے بعد انکے مخالفین کا راستہ صاف ہو چکا تھا ۔۔۔۔


لیکن اٹھارہ سال کی عمر میں زاویار نے انکا بزنس سمبھالا تھا اسکے بابا تو پہلے ہی اپنے بیٹے کو ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتے تھے اس لئے اسے شروع سے ہی بزنس کے بارے میں بہت سی اہم باتیں بتایا کرتے تھے لیکن وہ بات الگ تھی کہ زاویار کو گانے کا شوق تھا وہ سنگر بننا چاہتا تھا لیکن قسمت کے اگے کسکا زور چلا ہے ۔۔۔۔ 


وہ جو ایسے ہی اپنے بابا کا دل رکھنے کے لئے انکی باتیں سنتا تھا اسے کیا پتا تھا ایک دن اسے اپنا سپنا بھول کر یہ سب کرنا پڑے گا لیکن وہ ان سب میں اس حد تک چلا جائے گا کہ اسے اپنا بھی ہوش نہیں رہے گا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا ۔انشراح بیگم تو اپنے بیٹے کو اس طرح دن رات کام میں مصروف دیکھ اکثر افسردہ ہو جاتی کہ زندگی اتنی سی عمر میں کیا کیا کام کرواتی ہے انسان سے ۔۔۔۔ 


پچھلے بارہ سال سے یہی سب چل رہا تھا لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ انکا بیٹا گھر بسائے اسکے بچوں سے انکا آنگن بھی چہکے اور اب وہ کسی کی کوئی بات نہیں سننے والی تھی اگر وہ اسکی سری باتیں مانتی تھی تو اپنی منوانا بھی جانتی تھی ۔۔۔۔۔ 


اسی سلسلے میں وہ آفس کا بھی ایک چکر لگانا چاہتی تھی کیا پتا آفس مک ہی انکو انکی بہو مل جائے ۔۔۔۔۔


مجید صاحب اپ اب ریٹائرمنٹ لے لیں اور میرے لئے ایک ایک سیکٹری کا اشتہار لگوا دے اپکی پنشن اپکک ملتی رہے گی ویسے بھی اب آپکے آرام کرنے کے دن ہیں ۔۔۔۔


 نہیں سر میں ٹھیک ہوں میں کر لو گا ۔۔۔ 

 

نہ ہی اپ ٹھیک ہیں اور نا اپ کر سکتے ہیں کام ۔۔۔۔ 


اس لئے اب اپ جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ میری آج کی میٹینگز ہو چکی ہیں اب کوئی بھی آئے تو کہئے گا میں مصروف ہوں کچھ دیر ریسٹ کروں گا اب ۔۔۔۔۔۔ 


اوکے سر میں آپکے لئے کافی بھجواتا ہوں ۔۔۔۔


زاویار نے بے ساختہ اپنے دکھتے سر کو دبایا تھا اور اندر موجود ریسٹ روم کا رخ کیا تھا اس وقت اسے آرام کی اشد ضرورت تھی صبح 9 سے اب شام کے 6 بج رہے تھے اور وہ لگاتار کام کر رہا تھا ۔۔۔۔۔


تھوڑی ڈروارم کرنے کے بعد کافی پیتے اسنے ہونا کوٹ اٹھایا تھا اور گھر کا رخ کیا تھا پتا جو تھا اسکی جنت انتظار کر رہی ہوگی وہ دونوں ہی تو سہارا تھے ایک دوسرے کا ۔۔۔۔۔


جاری ہے ۔۔۔

Like comments kry al sb....warna me nahi de rahi roz epi....do din bad next 50 comments or 100 likes pr aj surprise epi

Post a Comment

Previous Post Next Post