Wehshat e raqsam by Asia eman 3rd episode


 

#ناول_وحشت_رقصم
#مصنفہ_آسیہ_ایمان
#قسط_نمبر_3

امی ۔۔اپی ۔۔۔ میری جوتے کہاں ہیں اور یہ کپڑوں کے ساتھ سکارف میچ نہیں کر رہا اپ کوئی اور دے اور اپی یہ کیا ابھی تک ناشتہ نہیں بنا ۔۔۔۔ اپنے بال بناتے ہوئے ہی وہ کچن میں اکر مارلین کے سر پر سوار ہو چکی تھی ۔۔۔۔

کیا ہو گیا ہے گڑیا ابھی تو سات بجے ہیں اور انٹرویو کے لئے  تم نے آٹھ تیس پر نکلنا ہے تو آرام سے بیٹھو ناشتہ ختم کرو سب کام ہو جائے گے تم پریشان مت ہو ۔۔۔میں دیکھتی ہوں ۔۔۔۔

اپی مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے پہلا انٹرویو ہے اور مجھے بہت گھبراہٹ ہو رہی ہے ۔۔۔پتا نہیں وہاں کے لوگ کیسے ہونگے ؟۔۔۔کیا کیا سوال پوچھے گے ؟۔۔۔

ارے کچھ نہیں ہوتا تم ایسے ہی پریشان ہو رہی ہو ۔۔۔۔ بلکل سکون سے ناشتہ کرو ۔۔۔

آج صبح سے غادا نے گھر کو سر پر اٹھایا ہوا تھا کبھی یہ نہیں مل رہا تو کبھی وہ سہی نہیں ہے ۔۔۔۔

بابا کی ہزار منتیں کرنے کے بعد اسکو اجازت مل گئی تھی نوکری کرنے کی اور یہ بھی تب ملی جب مارلین نے کہا تھا بابا کر لینے دے اسے اپنا شوق پورا شادی کے بعد تو ویسے بھی گھر سمبھالنا ہے اب اتنی پڑھائی کی ہے تو تھوڑا سا پھل اسے بھی ملنا چاہیے محنت کا ۔۔۔۔

بادل نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اس نوکری پر سبکو تو یہی لگتا تھا لیکن وہ الگ بات تھی کے اس نے غادا کو منا کیا تھا لیکن اس نے پیار محبت سے بادل خان کو منا ہی لیا تھا اور بدل ب شائد یہ سوچ کر مان گیا تھا کی شادی کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں کرنے دے گا اب چاہے تو اپنی خواہش پوری کر لے بعد میں گھر اور بچے ہی دیکھنے تھے ۔۔۔۔

پھوپھو نے تھوڑا شور کیا تھا لیکن اپنے بیٹے کے اگے انکی بھی ایک نہیں چلی تھی ۔۔۔۔

اس طرح آج وہ انٹرویو دینے کے لئے تیار تھی جاتے ہوئے اماں اور بابا جان کی دعا لی تھی اپی سے ملتے ہمیشہ کی طرح ایک ہی نصیحت ملی تھی آیات لكرسی پڑھ کر قدم رکھنا اللّه کامیاب کرے اور خود بھی دعائیں پڑھ کر پھونک دی تھی ۔۔۔۔

سب سے ملتی وہ بادل کے ہمراہ ٹیکسی میں سوار ہوئی تھی بادل آفس کی عمارت کے باہر اسے اتار کر واپس چلا گیا تھا جب کہ چھوٹا سا نوکیا کا موبائل اسکے ہاتھ میں دے گیا تھا مجھے کال کر دینا میں آجاؤں گا لینے غادا بھی خاموشی سے ہاں میں سر ہلا گئی تھی جب کے وہ محبت بھری ایک نظر اسکے چہرے پر ڈال کر وہاں سے واپسی کے لئے روانہ ہو گیا تھا اسے زمین پر نا جانا ہوتا تو سارا دن  یہی باہر بیٹھ کر اسکا انتظار کرتا ۔۔۔۔۔

بادل کے جاتے ہی اس نے ایک نظر سامنے موجود شاہ انڈسٹری کی طرف دیکھا تھا اور اندر جانے کے لئے اپنے قدم اگے بڑھا لئے تھے ۔۔۔۔

اندر قدم رکھتے ہی اسکا زور۔ دار تصادم ہوا تھا سامنے کوئی بہت ہی ڈیسنٹ سے شخصیت لئے کوئی خاتون موجود تھی جو دھکا لگنے کی وجہ سے اس سے پہلے کے گرتی اس نے سرعت سے انکو پکڑا تھا ۔۔۔۔

آئی ایم رئیلی سوری میم وہ میرا دھیان نہیں تھا اس طرف میری وجہ سے آپکو لگی تھی تو نہیں ایک بار پھر سے معذرت میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اپ پلیز مجھے معاف کر دیں ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں بچے اپ کو احساس ہو گیا یہ ہی کافی ہے اپ اتنا پریشن کیوں ہو رہی ہیں آرام سے مجھے کوئی بھی کہیں بھی چوٹ نہیں لگی اپ نے پکڑ تو لیا تھا نا مجھے غلطی کا ازالہ تو ہو گیا اس لئے اب بار بار یوں شرمندہ نا ہوں ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی نرم طبیعت سے فورا اسکی شرمندگی کو دور کرنا چاہا تھا لیکن وہ شائد گھبرا گئی تھی اس لئے بار بار معافی طلب کر رہی تھی ۔۔۔۔۔

اپ ایک کم کریں آئے یہاں بیٹھے آرام سے اور اپ پانی لیکر آئے انکے لئے بچی گھبرا گئی ہے ۔۔۔ خالد صاحب منیجر کو مخاطب کیا تھا جنہوں نے فورا پانی کا گلاس انکے اگے کیا تھا جسے تھام کر وہ بسم اللہ پڑھتے تھوڑا سا پی کر واپس کر گئی تھی اب وہ قدرے بہتر تھی ۔۔۔۔

اپ کو میں نے یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا کیا اپ یہاں نئی آئی ہیں ؟۔۔۔۔۔

جی آج میرا انٹرویو تھا اور اتے ہی یہ سب ۔۔۔وہ کنفیوز سی انکو بتا رہی تھی ۔۔۔۔

جب کہ انشراح جان اس پیاری سی لڑکی کا بغور جائزہ لے رہی تھی انکو یہ لڑکی پسند آئی تھی انکا آفس انے کا مقصد کامیاب ہوتا دکھائی دیا تھا وہ پچھلے کچھ دنوں سے روز ہی آفس آرہی تھیں اور زاویار جانتا تھا یہ سب کیوں ہو رہا ہے لیکن وہ چپ تھا وہ چاہتا تھا اسکی ماما جو چاہتی ہیں وہ کر کے اپنا شوق پورا کر لیں کیوں کہ پسند تو انکو کوئی انی نہیں تھی کیوں کہ یہاں سب ہی بہت ماڈرن لڑکیاں تھی اور انکو ماڈرن کے نام پر بے ہودگی بلکل پسند نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن یہاں شائد وہ ایک چیز بھول گئے تھے

" قسمت کو جب کسی سے ملانا ہوتا ہے تو بس ایک لمحہ لگتا ہے اور دلوں میں قید ہو کر رہ جاتا ہے "

جیسے انشراح جان نے غادا کو پہلی ہی نظر میں اپنے زاویار کے لئے پسند کر لیا تھا اب قسمت انکو کہاں لے جاتی ہے اس سے تو سب ہی انجان تھے ۔۔۔۔

اچھا تو اپ آج یہاں ہو رہے انٹرویو کے لئے آئی ہیں تو میری دعا ہے کہ اپ سیلکٹ ہو جائے ۔۔۔۔ انہوں نے دل سے دعا کی تھی اور نظروں ہی نظروں میں خالد صاحب کو اشارہ بھی کر دیا تھا جسے سمجھتے وہ بھی سر ہلا گئے تھے ۔۔۔۔

لیکن میم ابھی میری وجہ سے آپکو چوٹ لگ سکتی تھی اور اسکے باوجود اپ مجھے دعا دے رہی ہیں؟ ۔۔۔۔ اپنی حیرت کو چھپانا تو اس نے سیکھا ہی نہیں تھا اس لئے من میں مچلتا سوال بھی پوچ لیا تھا ۔۔۔۔

"جب کہ اسکی نت سن کر وہ مسکرائی تھی یہ صرف ایک حادثہ تھا اور اکثر ایسے حادثات کا نتیجہ بہت خوبصورت ہوتا ہے "

اگر یہ حادثہ نہ پیش آتا تو میں اپ سے کیسے ملتی ۔۔۔ اور اگر اپ سے نا ملتی تو میرا بہت بڑا نقصان ہو جاتا اتنی پیاری لڑکی سے بغیر ملے ہی چلی جاتی انہوں نے معنی خیز مسکراہٹ سے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔

اسکی تو خاک پلے پڑتا کچھ اس لئے خوش دلی سے مسکرا دی تھی ۔۔۔ اپ واقعی بہت اچھی ہیں جب کہ میں نے تو سن رکھا تھا اتنی بڑی کمپنی میں سب ہی مغرور ہوتے ہیں ۔۔۔۔لیکن اپ تو بہت اچھی ہیں اپ سے مل کر مجھے واقعی بہت اچھا لگا ۔۔۔

مجھے بھی اپ سے مل کر اچھا لگا نام تو بتائے ذرا دیکھو میں نام پوچھنا ہی بھول گئی کیا نام ہے اپکا تاکہ اگلی بار جب آؤں تو نام تو یاد رہے ورنہ ملو گی کیسے اپ سے ؟۔۔۔۔

جی جی ضرور میرا نام غادا ہے ۔۔۔ اور مل تو تب ہی پاؤں گی اکر یہ نوکری ملی تو ۔۔۔۔

ماشاءاللّٰه ماشاءاللّٰه بہت پیارا نام ہے اپکا ویسے نام کا مطلب کیا ہے ؟

غادا کا مطلب ہے خوبصورت ، حسین ۔۔۔۔

بلکل اپنے نام کی طرح ہی اپ خود بھی پیاری ہیں ۔۔۔ کسی بھی میک اپ سے پاک بڑی سی چادر جس سے اس نے خود کو کور کیا ہوا تھا اور ساتھ حجاب لیا ہوا تھا انکو وہ بہت ہی معصوم سی لگی تھی عمر میں زاویار سے چھوٹی تھی لیکن یہ کوئی وجہ تو نا تھی وہ انکار کرتا ۔۔۔۔ انکو دل سے یہ لڑکی بھا گئی تھی اور یہ تو طے تھا اب یہ جاب اسکی ہی تھی ۔۔۔۔

ارے جاب  نا ملنے کی وجہ سے پریشان نا ہوں یہ نوکری آپکو ضرور ملے گی اتنی ہونہار بچی ہیں اپ آپکو تو بغیر انٹرویو کے ہی رکھ لینا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔

چلیں میں اب چلتی ہوں پھر ملاقات ہوگی اپ سے ۔۔۔۔۔

لیکن اپ نے تو بتایا ہی نہیں اپ کون ہیں ؟۔۔۔

اپ اس وقت جس کمپنی میں کھڑی ہیں نا یہ میرے مرحوم شوہر کی ہے اور جنکے لئے اپ جاب کرنے آئی ہیں وہ میرا بیٹا ہے زاویار حارب شاہ اور اپ پریشان نا ھونا یہاں سب لوگ اچھے ہی ہیں آپکو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔۔۔۔

انکے جانے کے بعد بھی وہ انکی شخصیت میں ہی کھوئی ہوئی تھی اتنی بڑی کمپنی کی مالکن ہونے کے باوجود بھی غرور انکو چھو کر نہیں گزرا تھا ۔۔۔۔اگر وہ خود اتنی اچھی تھی تو واقعی انکا بیٹا بھی انکی طرح ہی ہوگا ۔۔۔۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوئی تھی اور یہاں شائد غلط مطمئن ہوئی تھی وہ ۔۔۔۔

اور پھر ایسا ہی ہوا تھا اسکا سر سری سا انٹرویو لیا گیا تھا جو کہ خالد صاحب نے خود لیا تھا اور اسی وقت سیلری کا بتا کر اس سے ایک ایگریمنٹ پیپر پر دستخط لئے تھے جن میں صاف صاف لکھا تھا وہ یہ جاب ایک سال سے پہلے نہیں چھوڑ سکتی ورنہ انکو ہرجانے کے طور پر کمپنی کو 1 لاکھ روپے دینے ہونگے ۔۔۔

اور اگر ایک سال بعد جاب چھوڑتی ہیں تو ایک مہینہ پہلے کمپنی کو اگاہ کرنا ہوگا۔۔۔۔ جب کہ تنخوا تو اسکی سوچ سے بھی زیادہ تھی ایک مہینے کا پچاس ہزار اور نوکری کیا تھا بس اپنے باس کے ساتھ رہنا ہے اور انکی روٹین کو دیکھنا انکے لئے کافی وغیرہ یہ سب تو کچھ بھی مشکل نہیں تھا اسکے لئے ۔۔۔۔

یہ بس اسکی سوچ ہی تھی اگے کیا ہونا تھا یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا ۔۔۔۔۔

وہ خوشی خوشی بادل کے ساتھ واپس آئی تھی اسکی خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ اتنی آسانی سے اسے اتنی بڑی کمپنی میں نوکری مل گئی تھی اور وہ بھی اتنی اچھی سیلری پر ۔۔۔

اب تو انکے سارے مسلے ہی حل ہو جانے تھے زیادہ نا سہی ایک سال ہی سہی لیکن وہ یہ نوکری ہاتھ سے جانے نہیں دینے والی تھی یہ اسکی آخری سوچ تھی ۔۔۔

جب کہ اسکا خوشی سے تمتماتا چہرہ دیکھتے بادل کے چہرے پر بھی بہت خوبصورت مسکراہٹ رقص کر رہی تھی ۔۔۔۔

"اگر اپکی محبت خوش ہو تو اسکو دیکھ کر آپکو جو خوشی ملتی ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی "
اور یہی حال اس وقت بادل شیر خان کا تھا ۔۔۔۔ وہ خوش تھا اپنی زندگی کو یوں خوش دیکھ کر ۔۔۔۔

گھر جا کر غادا نے جو طوفان مچایا تھا پہلے تو سب بوکھلا ہی گئے تھے لیکن جاب لگنے کا اور اتنی اچھی سیلری کا سن کر واقعی اماں نے اللّه کا لاکھ لاکھ شکر کیا تھا ۔۔۔۔

اب و۔ کو کوئی پریشانی نہیں تھی اب آرام سے وہ مارلین کی شادی کی تیاری کر سکتی تھی کیوں کہ اسکے بابا اب جلد اسکو رخصت کرنا چاہتے تھے جسکے لئے پہلے تل انکو پیسوں کا انتظام کرنا تھا لیکن اب ایک کام ہو گیا تھا ۔۔۔تو جو بھی اچھا رشتہ ملتا وہ شادی کے لئے تاریخ لینے والے تھے ۔۔۔۔۔

جب کہ دوسری طرف جب زاویار کو اپنی سیکٹری رکھ لینے کی خبر ملی تو وہ حیران رہ گیا تھا یہ سب کیسے ہوا اور کس نے رکھ لی ۔۔۔۔

میں یہاں صبح سے بیس انٹرویو لے چکا ہوں لیکن کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اسے نوکری پر رکھا جائے اور تم کہہ رہے ہو کہ سیکٹری فائنل ہو چکی ہے ۔۔۔۔ غصہ سے اسکی دماغ کی رگیں پھول گئی تھی چہرہ الگ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔۔

سر انشراح میم یعنی اپنی موم نے ہی ہمیں آرڈر دیا ہے کہ آپکو بتا دیا جائے انہوں نے سیکٹری رکھ لی ہے آپکے لئے اور وہی یہ جاب کرے گی ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔

ورنہ کیا ہاں ورنہ کیا ؟۔۔۔۔ آنکھیں بند کرتے اس نے خود کو پرسکون کیا تھا اور ہاتھ کے اشارے سے خالد صاحب کو جانے کا کہا تھا ۔۔۔۔

اب اسے لگ رہا تھا کہ اس نے شائد پچھلے سیکٹری جو فارغ کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے جسکی سزا اب اسے اپنی نئی سیکٹری کی صورت بھگتنی تھی جسکو اسکی ماما فائنل کر گئی تھی ۔۔۔۔ اپنا پورا دن برباد ہونے پر ایک بار پھر اسے غصّہ آیا تھا اور ہاتھ مار کر ٹیبل پر موجود ساری فائلز نیچے گراتے اپنا غصّہ کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔

کیوں کہ ہونا تو وہی تھا جو ماما نے کہہ دیا تھا اس لئے وہ گھر پرسکون ہو کر جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ اب کل وہ بھی دیکھنا چاہتا تھا اسکی ماما نے کسے اور کیوں جاب پر رکھا تھا ۔۔۔۔ جسکے لئے اسکے سارے دن کی محنت بےکار گئی ۔۔۔۔ حلانکہ سیلکٹ اس نے ایک بھی نہیں کی تھی سری ہی انٹرویو سے زیادہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جسے دیکھ کر اس نے یہی سوچا تھا کہ میل سیکٹری کا دوبارہ انٹرویو کرے گا ۔۔۔۔لیکن  اس سے پہلے ہی اسکے لئے سیکٹری سیلکٹ ہو چکی تھی۔۔۔۔۔

اب کل کا سورج کس کے لئے کیا امتحان لانے والا تھا یہ تو کل ہی پتا چلنا تھا ۔۔۔۔لیکن جو بھی ہونا تھا یہ تو قسمت میں طے تھا کہ ہونے والا کوئی نیا دھماکہ ہی تھا اب کس کے لئے دھماکہ تھا یہ تو کل ہی پتا لگنا تھا ۔۔۔۔۔

جاری ہے ۔۔


Post a Comment

Previous Post Next Post