#ناول_وحشت_رقصم
#مصنفہ_آسیہ_ایمان
#قسط_نمبر_12
ایک سال بعد
نور حبور کہا ہے میرا بچا غادا اسکو ڈھونڈتی ڈھونڈتی باہر آئی تھی اور ہمیشہ کی طرح وہ لان میں موجود مٹی اکھاڑ اکھاڑ کر کھا رہی تھی ۔۔۔۔
اففف حبور کتنی دفع منع کیا ہے آپکو اچھے بچے مٹی نہیں کھاتے ۔۔۔۔ یہ کوئی کھانے کی چیز ہے ؟۔۔۔۔ بیٹا اس میں چیزیں اگا کر کھاتے ہیں تم تو لگتا ہے اپنی مستقبل میں بادل چاچو کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی ہو یہی لگتا ہے مجھے اپنی چھوٹی سی گڑیا کی حرکتیں دیکھ کر غادا اسکے ہاتھوں سے مٹی لیکر واپس دور پھینکی تھی اور اب اسکے سامنے بیٹھ کر پیار سے اسکے ننھے ننھے ہاتھ صاف کرتے اسے بتا رہی تھی کہ وہ کیا بننے کا ارادہ رکھتی ہے مستقبل میں ۔۔۔۔ اور حبور کو شائد اسکی بات بھی پسند آئی تھی اس لئے كراولینگ کرتے اسکے قریب آئی تھی اور جس ہاتھ میں مٹی چھپائی تھی وہ اسکے دائیں گال پر لگا دی تھی ۔۔۔۔۔
اسکا تو منہ ہی کھل گیا تھا جسے دیکھتے وہ مسلسل مسکراتے اسے دیکھ رہی تھی شائد نہیں بلکہ یقینا اسے اپنی خالہ کی یہ لک پسند آئی تھی ۔۔۔۔ ابھی اس نے بولنا سٹارٹ نہیں کیا تھا بس تھوڑا بہت جو لفظ نکلتا تو بول لیتی مم غادا کو کہتی جب کہ وہ بہت بار اسے خالہ بولنا سکھ چکی تھی لیکن مجال ہے جو وہ بول لے اپنی طرف سے ہی وہ اسے مم بلا لیتی ،می(مٹی) کو کہتی ۔۔۔۔۔۔ زاویار کو (بی ) کہہ کر بلاتی ۔۔۔۔۔
وہ دونوں باتوں میں اتنی مگن تھی کہ پتا ہی نہیں چلا کوکوئی وجود انکے پیچھے کھڑا ہے ۔۔۔ بادل کے ذکر پر اسکی آنکھوں میں صاف غصّہ چھلکا تھا جسکا اسے خود بھی اندازہ نہیں ہو سکا تھا کہ اسے کیوں اتنا برا لگ رہا ہے ۔۔۔۔جب کہ اسے معلوم تھا اب جلد اسکی اور غادا کی شادی ہونے والی ہے ۔۔۔ ساری سوچوں کو جھٹک کر وہ اگے بڑھا تھا اور نور حبور کو اپنی گود میں لیا تھا جو باپ کو دیکھ اسکی طرف ہمک رہی گھی غادا ان دونوں کو وہی چھوڑ کر خود اندر کی طرف بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
میری شہزادی نے بابا کو یاد کیا ۔۔۔۔ ہاں کیا تھا ۔۔۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے بابا نے بھی اپنی شہزادی کو بہت یاد کیا پورا دن ۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے اسے گدگدی کرتے دونوں کھلکھلا کر ہنسے تھے اور یہ صرف تب ہی ہوتا جب وہ پورا دن گزرنے کے بعد ایک ساتھ ہوتے ۔۔۔۔۔
اسے حادثہ کہتے یا قسمت لیکن سب کچھ ایسے ہی لکھا تھا مارلین کی عمر ہی اتنی تھی وہ اتنی ہی عمر لکھوا کر آئی تھی اور موت تو برحق ہے سوتے میں بھی آجاتی ہے اگر لکھی ہو تو ۔۔۔۔لیکن وہ ماں کے عہدے پر فائز ہوتے زندگی کی بازی ہار گئی تھی جہاں سب کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا وہیں نور حبور کی وجہ سے سب کو اس فیض سے باہر آنا ہی پڑا اور اس مشکل وقت میں ایک غادا ہی تھی جسنے سبکو سمبھالنے کے ساتھ ساتھ حبور کی بھی ذمہ داری لی تھی اور وہ نبھائی بھی تھی ۔۔۔۔
زاویار کو تو چپ لگ گئی تھی پورے چوبیس گھنٹے بعد اسے جب ہوش سمبھالا تو پہلا خیال اپنی ننھی پری کا آیا تھا جسے غادا کر پاس سہی سلامت دیکھ کر اسے جہاں سکون آیا تھا وہی اس سے بچی چھین کر بے سکون بھی رہا تب اسے پتا چلا کہ اسے وہ اکیلے نہیں سمبھال سکتا ۔۔۔۔غادا بغیر برا منائے حبور کے واس آگئی تھی اب وہ ہفتے کے تین دن اپنے گھر گزرتی حبور کے ساتھ اور باکی کے چار دن انشراح جان کے پاس ۔۔۔۔
حبور کو اس سے انسیت سی ہو گو تھی اب وہ غادا کر بغیر رہ بھی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔۔اسے ممتا کا احساس اس سے ہی محسوس ہوتا تھا تھا اس لئے اس سے لگاؤ زیادہ ہو گیا ۔۔۔۔۔ اب تو تین ہفتے ہو گئے تھے اور غادا یہی تھی۔۔۔۔۔۔
_____________________________
ابھی وہ نہا کر باہر ہی نکلی تھی کہ بادل کی کال دیکھتے اس نے مسکراتے ہوئے فون اوکے کیا تھا اور سپیکر پر ڈال کر اپنے بل ڈرائے کرنے لگی ۔۔۔۔
اپنے محبوب پر بھی ذرا نظر کرم کیجیے
اپکی اک نظریں کرم کے انتظار میں کہی جان نا نکل جائے
وہ اپنے دل کی بات اس تک پہنچاتے اب خاموشی سے اسے محسوس کر رہا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا ہمیشہ کی طرح ایک ہی جواب انے والا ہے اور وہ دل و جان سے منتظر تھا اس جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔
جب کہ اسکے یہ الفاظ سنتے اسکی دھڑکن منتشر ہوئی تھی چہرے کا رنگ الگ تبدیل ہوا تھا خود پر قابو پاتے وہ خفگی سے گویا ہوئی تھی ۔۔۔۔ اپ کو میں نے کہا بھی ہے ابھی ایسی باتیں نا کیا کریں ۔۔۔۔۔
اچھا تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ میں شادی کے بعد ایسا کہا کروں چلو یہ بھی ٹھیک ہے تب تو عملی طور پر بھی اپنی دلی کیفیت کا احساس دلاؤں گا ۔۔۔۔
اتنا سننا تھا کہ اس نے فورا سے فون کاٹا تھا اسے اپنے دل کی دھڑکن کانوں میں محسوس ہوئی تھی وہ واقعی بہت بے باک تھا ۔۔۔۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے اس نے خود کو نارمل کیا تھا ۔۔۔۔ جب کہ کھڑکی کے پاس کھڑے وجود کے جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑی تھی اپنی گرفت ہاتھ مو موجود گلاس پر سخت کرتے ایک چھناک سے گلاس ٹوٹا تھا اور اسکے ہاتھ کو بھی زخمی کر گیا تھا وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔۔
کیسے ۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔کیسے وہ شادی کے بارے میں سوچ سکتی ہے ؟۔۔۔اسے کوئی جق نہیں پنچتا یہ سب باتیں کرنے کا یا سوچنے کا ۔۔۔۔کیوں کہ وہ ہمیشہ یہی رہے ہی حبور کے پاس مجھے اس سے ذرا لگاؤ نہیں ۔۔۔۔لیکن اگر وہ چلی گئی تو حبور کا کیا ؟۔۔۔وہ کیسے رہے گی ؟۔۔۔۔نہیں میں کسی بھی قیمت پر یہ سب ہونے نہیں دونگا ۔۔۔۔۔ میری بیٹی کو اسکی ضرورت ہے اور وہ خود بھی تو نور حبور کے بغیر نہیں رہ سکتی تو میں یہ سب ان دونوں کے لئے ہی کروں گا تاکہ وہ دونوں قریب رہے ۔۔۔۔پھر اسکے لئے مجھے اس باتونی اور جھلی سے کنٹراکٹ ہی کیوں نا کرنا پڑے ۔۔۔۔میں اسکو منہ مانگی قیمت دوں گا اسے بس بدلے میں کرنا ہی کیا ہے ۔۔۔۔میری بیٹی کا خیال رکھنا ہے چوبیس گھنٹے اسکے پاس رہنا ہے اسکی دیکھ بھال کرنی ہے ۔۔۔۔
اپنے ذہن میں وہ پوری پلاننگ کر چکا تھا ۔۔۔لیکن یہ تو طے تھا وہ غادا کو کسی بھی قیمت پر حبور سے دور ہونے نہیں دیگا ۔۔۔۔ اب دیکھنا یہ تھا وہ اپنی بچی کے لئے جنون کی کس حد تک جاتا ہے ۔۔۔۔ لیکن جو بھی ہونا تھا وہ بھی انکی قسمت ہی تھی نا قسمت پر پہلے کسی کا زور چلا ہے اور نا آج چلنا تھا ۔۔۔۔۔۔
________________________
پستا بیگم آج بہت مصروف تھی ایک تو پورے گھر میں وہ اکیلی ہی خاتون تھی وہ تو شکر تھا اب بادل نے انکے لئے ملازمہ رکھ دی تھی جسکی مدد سے وہ جلدی کام نپٹا لیتی تھی ۔۔۔۔۔آج دیورانی یعنی بادل کی چچی اصلیحان خاتون آرہی تھی اور انکی فمیلی بھی جن میں انکی بیٹی عنود اور انکے شوہر واصف خان بھی تھے ۔۔۔۔ عنود کی نظر کمزور تھی اسے ڈائری لکھنا بہت پسند تھا وہ خاندان میں بلکل خاموش اور نرم طبیعت کی وجہ سے مشہور تھی جب کہ بادل کو سخت چڑ تھی اسکی ایسی عادت سے ۔۔۔۔اس عادت کو وجہ سے بچپن سے اسکی سب مثالیں دیتے جسکی وجہ سے وہ خود نرم مزاج کا حامل بگڑ جاتا تھا خیر یہ سب تو بچپن کی باتیں تھی اب تو وہ سب جوان ہو گئے تھے ۔۔۔۔
جاری ہے
Buhat mazrat al sb sy me epi post nahi kr pai kl ... Waja is liye nahi btai ke buhat sari writers jb bta kr epi nahi deti kuch log apny comnts se unka dl dukha dete or agr mera dil dukh jata to mera man nahi krna tha epi likhne ka phir ap logon ko pora hafta intazar krna parta ....again buhat mazrat ...ab koshish hai ek surprise dedo apko ...bs jaldi se likes krtemy jaye apke response pr raat tk ek or epi😍