#ناول_وحشت_رقصم
#مصنفہ_آسیہ_ایمان
#قسط_نمبر_9
بڑی سی گاڑی حارب مینشن کے اندر داخل ہوئی تھی مارلین گھبرائی اور شرمائی سی کار میں بیٹھی تھی ساتھ ہی انشراح جان بیٹھی ہوئی تھی جو اسے پیار سے خاموش کرواتی آئی تھی کہ وہاں سے نکلنے کے کافی دیر تک مارلین روتی ہی رہی تھی....
جب کہ دولہا صاحب تو ڈرائیونگ میں ہی مصروف تھے بس جب جب ماما کی باتیں کان میں پڑتی تو زیر لب مسکرا دیتا کہ کوئی بہو سے بھی اتنا پیار کرتا ہے ۔۔۔۔
لیکن وہ شائد جانتا نہیں تھا مارلین اب اسکے نام کے ساتھ جڑ چکی تھی اور انہیں تو پیار ہی اتنا تھا اپنی جان کے ٹکرے سے تو اسکی بیوی سے کیوں نا پیار کرتی وہ جب کہ وہ تھی بھی انکی پسند ہی۔۔۔۔ بس تھوڑی سی خاموش طبیعت کی مالک تھی ۔۔۔۔
گاڑی رکتے ہی اس نے پہلے اپنی انشراح جان کے لئے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔۔
ہمیشہ خوش رہو میرے بچے ۔۔۔۔
اب ذرا اپنی بیگم کو بھی باہر لے آئے ۔۔۔۔
مارلین کی سائیڈ کا دروازہ کھولتے اسکے اگے اپنا ہاتھ کیا تھا تاکہ وہ آرام سے باہر اسکے ۔۔۔۔
جب کہ وہ شرماتی ہوئی اپنے کانپتے ہاتھ کو اسکے ہاتھ میں دے گئی تھی نکاح کے پاک رشتے کے بعد یہ انکا پہلا لمس تھا جو دونوں نے ہی بخوبی محسوس کیا تھا ۔۔۔۔
ذاویار بیٹے بہو کو کمرے میں لے جائے بہت تھک گئی ہونگی گھر میں داخل ہوتے ہی انشراح جان نے ہزاروں کے کئی نوٹ دونوں کے سر سے وار کر ملازموں میں بانٹ دیے تھے
اور اسے آرام کی غرض سے کمرے میں لے جانے کا کہا تھا جسے زاویار نے سنتے ایسے ہی اسکا ہاتھ پکڑے اپنے کمرے کا رخ کیا تھا ۔۔۔۔
اسے بیڈ پر بٹھاتے خود دروازہ بند کرتے الماری میں سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی تھی اور اسکے پاس بیڈ پر بیٹھتے وہ ڈبی اسکے ہاتھ پکڑتے اس پر رکھی تھی ۔۔۔۔
یہ اپکی منہ دکھائی ہے ۔۔۔۔ اصل میں میں بہت ہی پریکٹیکل سا بندہ ہوں سب سے ضروری کام پہلے کرنے کی عادت ہے اس لئے سوچا پہلے اپکا حق آپکو دے دوں ۔۔۔۔
اب اگر اپکی اجازت ہو تو میں یہ گھونگھٹ اٹھا لوں ؟
اس نے فقط سر کو ہاں میں جنبش دے کے گویا اجازت دی تھی ۔۔۔
زاویار نے نرم نظروں سے اسکی طرف دیکھا تھا بلاشبہ وہ خوبصورتی کا پیكر تھی لیکن اسے جو چیز پسند آئی تھو وہ اسکی شرم سے جھکی پلکیں تھی اسے تھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اوپر کیا تھا.....
جب مارلین کی نظریں بھی اس سے چار ہوئی تھی دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں کھوئے تھے ۔ مارلین نے شرما کر نظریں جھکا لی تھی ایک خوبصورت مسکان نے اسکے چہرے پر احاطہ کیا ہوا تھا ۔
______________________________
اسکی سہیلی جیسی بہن آج اپنے گھر کی ہو گئی تھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ اسکے بغیر کیسے رہے گی ۔۔۔ لیکن وقت سکھا دیتا ہے اور وہ بھی سیکھ ہی جائے گی ۔۔۔۔
یہی سوچتے وہ کروٹیں ہی بدلتی رہ گئی تھی رات کا ایک بج چکا تھا اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔۔۔
اپنے بال سنوارتے سر پر دوپٹہ لیتے وہ ننگے پاؤں گی سہن میں آئی تھی لیکن یہاں تو ہر طرف خاموشی اور اندھیرا ہی تھا وہ آرام سے لکڑی کی سیڑیاں چڑھتی چھوٹے سے چھت پر آگئی تھی اور منڈیر سے کمر ٹیکا کر آسمان کی طرف اپنا رخ کر گئی تھی ۔۔۔۔
کل تک وہ اپنی بہن کے ساتھ یہاں اکر اس سے ڈھیروں باتیں کرتی تھی اور اپنی حرکتوں سے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی اپنی اپی کو مسکراتے دیکھ وہ بہت زیادہ خوش ہوتی تھی اسکا کوئی بھائی تو نہیں تھا جو اسکے لاڈ اٹھاتا آپی ہی اٹھاتی تھی ۔۔۔
اب وہ بھی چلی گئی تھی اسے چھوڑ کر ۔۔۔۔
وہ انھیں سوچوں میں تھی جب اسے اپنے بلکل پیچھے کان کے قریب کسی کی سرگوشی محسوس ہوئی تھی اس سے پہلے وہ ڈر کر چیخ پڑتی مقابل نے جلدی سے اسکے منہ پر ہاتھ جمایا تھا.....
مبادا آواز سن کر کوئی اوپر ہی نا آجائے ورنہ تو آج اسکی پھینٹی یقینی تھی
جاری ہے ...
Mazrat aj epi waqai buhat choti hai ehsas hai mujy lekin itni hi likh pai hun ...zarori kam tha ...dua kry jaldi free ho jao to sham ya raat me ek or epi post kr do gi surprise ke tor pr ....abhi sorry apny reviews dena na bholy 😊